آج ابو جانی کو جدا ہوئے دو سال مکمل ہوگئے۔ یہ دو سال کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا دو صدیاں تھیں، ایک ایک پل نجانے کتنی مدت کا تھا اور کبھی حقیقتا یہ احساس ہوتا ہے کہ دو سال، شائد دو لمحے تھے۔ ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے، وہ ہمارے درمیان موجود تھے، اپنی دائمی اور ہمیشگی کی مسکراہٹ کیساتھ۔ آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے۔ آخری دنوں میں تکلیف کی انتہا ہونے کے باوجود، صبر و شکر سے مسکراتے ہوئے۔ اور پھر وہ آخری زوردار “جپھی” اور کاندھا تھپکنا، یہ لمس اور لمحہ شائد میں بقیہ زندگی نہیں بھلا پائوں گا، بھلانا چاہئے بھی نہیں۔
ان کی برسی رمضان کے مبارک دنوں میں آئی تو لامحالہ ساتھ گزرے رمضان کے دن اور باتیں بھی امڈ امڈ کر یاد آتی رہیں۔ رمضان میں عبادات سے مزید شغف، باقاعدگی سے مطالعہ کیلئے وقت نکالنا، وقت کے بہتر استعمال کی کوشش کرنا، افطار میں اپنی پسند کی چیزیں بنوانا۔۔۔ اور ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتیں جو اب واقعی ہم سب کیلئے ایک اثاثہ ہیں اور انہیں ہمیشہ یاد رکھنے میں مددگار بھی۔
شائد بچپن کے بھی بہت ابتدائی دنوں کی بات ہے، وہ اعتکاف میں تھے، میں نہ جانے کس کیساتھ انہیں ملنے گیا، وہ مسجد کے صحن ہی میں کچھ اور افراد کیساتھ بیٹھے تھے، انہیں دور سے دیکھ کر اچانک سے ایسی ایکسائٹمنٹ ہوئی کہ میں جوتوں سمیت ہی ان کی جانب بھاگتا چلا آیا اور وہ مجھے ایسے دیکھے کر “اوہ اوہ” کہتے ہوئے لپکے، جوتے اتروائے اور پھر اپنی گود میں لے کر دوبارہ وہاں بیٹھ گئے۔ یہ بہت ہی پرانی بات مجھے بہت عرصہ سے یاد بھی ہے اور بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی لے آتی ہے۔
اس کے بعد کچھ بال و پر نکلے تو اعتکاف کے دوران ابو کو سحری پہنچانے کی ذمہ داری لگی، قدرے سرد موسم میں صبح صبح سحری دینے جانا بذات خود ایک انوکھا تجربہ تھا لیکن مجھے اچھا لگتا تھا، مسجد کے صحن میں سب لوگ بیٹھ کر سحری کرتے اور میں اس دوران ابو کے پرسکون حجرے میں جا کر لیٹ جاتا جہاں پھیلی کسی سافٹ سے عطر کی خوشبو مجھے آج بھی یاد ہے۔ کبھی دل کرتا تو سحری کرنے والے حضرات کے ساتھ ہی سحری میں شامل ہوجاتا، یہ افراد دو ٹولیوں میں وہاں بیٹھتے تھے، ایک پکے ٹھٹے متقی ٹائپ بزرگوں کا گروپ اور دوسرا “بگڑے” ہوئے جوانوں اور ان کے سرپرستوں کا گروپ۔ بہرحال مسجد اہلحدیث شادباغ کا یہ ماحول ہمیشہ ہی سے پرکشش لگتا تھا اور پھر ابو کی وجہ سے اس سے اور بھی انسیت رہی۔
زندگی کی پہلی تراویح بھی یہاں ہی پڑھی، سال تو یاد نہیں لیکن ابو کی انگلی پکڑے، افطار کے کچھ ہی دیر بعد مسجد کیلئے روانہ ہونا اچھی طرح یاد ہے اور یہ بھی کہ گو وہاں تراویح کی رکعات آٹھ تھیں لیکن ان کی طوالت کے باعث میں بہت دیر سوچتا رہا کہ یہ لوگ روزانہ پانچ بار اتنی لمبی نماز کیسے پڑھتے ہوں گے۔ خیر بعد میں خود ہی یہ باتیں سمجھ آتی گئیں اور تراویح میں ڈنڈی مارنے کے طریقے بھی ڈھونڈ لئے لیکن ابو کی تراویح سے رغبت جو پہلے دن دیکھی، آخر تک ویسی ہی رہی۔
میں نے اور بلال نے حفظ شروع کیا تو اسی سال رمضان میں انہوں نے کہا کہ جتنا جتنا بھی حفظ ہے وہ گھر میں روزانہ تراویح میں سنایا کریں اور پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا، میں تو تراویح کی طرح حفظ سے بھی ڈنڈی مارنے میں کامیاب رہا لیکن بلال حفظ مکمل کرنے کے بعد اب بھی ہر سال تراویح پڑھاتا اور ان کیلئے صدقہ جاریہ کا باعث بنتا ہے۔
رمضان کے حوالے سے ایک اور یاد سحری کے بعد فجر کیلئے جانا بھی تھا۔ ہم لوگ نماز پڑھ کر فورا ہی مسجد سے باہر نکل آتے لیکن وہ دعا کے بعد اکثر درس سننے بھی بیٹھ جاتے اور پھر اس کے اختتام پر مسکراتے ہوئے باہر آتے۔ گھر واپسی کے سفر پر ان کا معمول تھا کہ اونچی آواز میں دعائیں اور اذکار پڑھتے جاتے۔ اس دوران بالکل بھی کسی سے بات نہ کرتے اور بس اپنے ہی دھیان میں دعائیں پڑھتے رہتے، مجھے جو دعائیں یاد ہیں ان میں سے اکثر وہی ہیں جو اس طرح فجر کے بعد ان کیساتھ آتے جاتے سنیں اور پھر یاد کرلیں۔
رمضان کے دنوں میں فجر کے علاوہ عصر کے بعد بھی باقاعدگی سے تلاوت کرتے۔ عصر پڑھ کر آنے کے بعد اکثر ڈرائنگ روم یا پھر اپنے کمرے میں بیٹھ جاتے اور تھوڑی سی اونچی آواز میں تلاوت کرتے رہتے۔ وہ حفظ کیلئے کبھی بھی باقاعدہ کسی مدرسہ نہیں گئے لیکن صرف اپنے ذوق کی وجہ سے قرآن کا ایک اچھا حصہ ان کو زبانی یاد تھا اور اسے دہراتے بھی رہتے۔ شائد اسی ذوق کی وجہ سے انہوں نے ہمیں حفظ کیلئے مدرسہ بھی بھیجا لیکن جب مسلسل چار سال مختلف مدارس میں قاری صاحبان سے بھرپور “عزت افزائی” کے بعد بھی یہ سعادت نصیب نہ ہوئی اور میرے مزاج میں باغی پن واضح ہوتا گیا تو مدرسہ سے اٹھا لیا لیکن اکثر کہتے رہتے کہ یار جو یاد کیا تھا اسے تو تھوڑا تھوڑا کرکے پکا کرلو، باقاعدگی سے پڑھتے تو رہا کرو۔
رمضان میں مغرب سے پہلے جب افطار کی ٹیبل سج جاتی اور سب گھر والے بیٹھ کر اپنی پلیٹیں بنانے میں مصروف ہوتے تو وہ خاموشی سے ہاتھ اٹھائے، آنکھیں بند کئے دعائوں میں مشغول رہتے، انہیں ایسے دیکھنا اچھا لگتا تھا۔ کبھی کبھار ہی افطار کیلئے اپنی کسی پسند کی چیز کے بارے میں اسرار کرتے لیکن ہم میں سے ہر ایک سے اس کی فرمائش کا ضرور پوچھتے رہتے خاص کر تب، جب میں یہاں برطانیہ سے عید کرنے پاکستان ایک آدھ دن پہلے پہنچ جاتا اور ایک یا دو افطاریاں پاکستان میں کرنے کا موقع مل جاتا تب فون پر ہی پوچھتے رہتے کہ افطار کیلئے کیا بنائیں اور پھر بھرپور اہتمام بھی کرواتے۔
رمضان کے حوالے سے ابو کے اپنے معمولات تو بہترین تھے ہی ہم سب کیلئے بھی کوشش کرتے اور رمضان سے قبل یا درمیان میں بھی گاہے گاہے یاددہانی کرواتے رہتے۔ برطانیہ آنے کے بعد بھی رمضان کے دنوں میں جب بھی فون کرتے تو معاملات کا پوچھتے۔ میں بتاتا کہ جاب ٹائمنگ کی وجہ سے تراویح نہیں پڑھتا تو کہتے وہاں ہی تھوڑا وقت نکال کر پڑھ لیا کرو، اکیلے پڑھ لیا کرو، چار یا آٹھ ہی پڑھ لیا کرو لیکن کوشش کرو کہ پڑھ لو۔ ایسے ہی پاکستان میں ڈگری کرنے کے بعد جب میری جاب ڈیرہ غازی خان میں ہوئی تو ایک رمضان وہاں بھی گزارا۔ رمضان کا چاند نظر آںے کے بعد انہوں نے مبارک دینے کیلئے فون کیا اور پہلا سوال ہی یہ پوچھا کہ وہاں تراویح کا کیا انتظام ہے اور مسجد کتنی دور ہے۔
آج، مصروفیت، ترجیحات کے تبدیل ہوجانے اور اپنی ذاتی نالائقیوں کے باعث بھلے ان کے سکھائے ہوئے اسباق سے کتنی ہی دوری ہو لیکن بہرحال یہ باتیں یاد ہیں، ذہن میں نقش اور دل میں جذب ہیں۔ رمضان کے ان مبارک لمحات میں یہی دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ہمیں جنت میں ایک بار پھر ملا دے۔ اور اس عرصہ کے دوران ہر لمحہ، ہر دن ان کو اور ان کی باتوں کو یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔