آج 14 فروری ہے۔۔۔۔ ویلنٹائن ڈے۔۔۔
یہ دن ہمارے معاشرے میں بھلے چند برس قبل سے ہی مقبول ہونا شروع ہوا ہو، لیکن میرے لئے یہ دن کم از کم اپنا ہوش سنبھالنے ہی سے خاص رہا ہے۔۔۔ یہ دن ابو جانی کی سالگرہ کا دن ہے۔ سو ہمیشہ اسی مناسبت سے یاد رہے گا اور ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ ان کی ذات کا ایک بہت بڑا پہلو، خوشیوں کو سیلیبریٹ کرنا تھا۔۔۔ خوشی اپنی ذاتی ہو یا اپنے گرد موجود افراد کی، وہ اسے اپنی خوشی سمجھتے اور بلاشبہ بھرپور انداز سے منانے کی کوشش کرتے۔

اپنی سالگرہ کے دن کوئی بہت خاص اہتمام تو نہیں کرتے تھے لیکن آفس سے واپسی پر کیک لانا نہ بھولتے یا پھر موڈ ہوتا تو کھانے کے بعد آئس کریم کھلانے لے جاتے۔
اس کے برعکس ہم سب کی سالگرہ کو اچھی طرح سے منانے کی کوشش کرتے، چھٹی کا دن ہوتا تو اہتمام بھی کرتے، کیک کے ساتھ خود کہ کر گھر میں دیگر چہزیں بھی بنواتے۔ علاج کے سلسلے میں، آپریشن سے پہلے اور بعد کا جو عرصہ اسلام آباد میں گزارا اس دوران اکثر کزنز دیکھ بھال کیلئے وہاں آتے رہے۔ ان میں سے بھی جس جس کی سالگرہ اس دوران آئی، اس کیلئے خود کیک منگوایا اور سیلیبریٹ کیا۔

میری جتنی سالگرہ بھی برطانیہ میں آئیں، وہ رات کو میسج کرنا اور دن میں فون پر مبارک باد دینا نہ بھولتے۔ 2017 کی سالگرہ پر انہوں نے وش کرنے کیلئے “جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے” پوری نظم خود ٹائپ کرکے سینڈ کی۔۔۔یہ میسج ان کے دیگر لاتعداد میسجز کیساتھ آج بھی میرے فیس بک میسنجر میں سیو ہے۔۔۔ اور یقینا کسی بھی قیمتی تحفے سے کم نہیں۔

تحفے تحائف دینا بھی ان کی گویا عادت تھی اور اس میں دلی خوشی محسوس کرتے۔ خاص طور پر اپنے اردگرد موجود لوگوں کی تعلیمی کامیابیوں یا کیئریر گروتھ پر حد سے زیادہ خوش نظر آتے۔۔۔ اسکول کے زمانے سے لے کر یونیورسٹی ڈگری تک اور پھر جاب میں، جب جب جو بھی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی بھی حاصل ہوئی، اس پر برملا اپنی خوشی کا اظہار کرتے اور مزید ہمت بڑھاتے۔ اسکول میں رزلٹ آنے کے بعد ہمیشہ مجھے اس بات کا انتظار رہتا کہ کب وہ فری ہوں اور ہم “فیروز سنز” جائیں اور پھر وہاں سے تھیلے بھر بھر کتابیں لائیں۔ کتاب سے محبت بذات خود، ان کی جانب سے دیا گیا انمول تحفہ ہے۔۔۔

وہ خود بھی ہمیشہ سے ایک اچھے طالب علم رہے تھے اور مشہور تھا کہ ابھی تک میٹرک میں ہمارے پورے خاندان میں سب سے زیادہ نمبر انہوں نے ہی حاصل کئے ہیں، اس “ریکارڈ” کو ان کی ایک بھانجی اور ہماری کزن نے بریک کیا تو بہت خوش ہوئے اور اسے بھرپور شاباش کیساتھ “پارکر” کا پین بھی تحفے میں دیا، جو اس زمانے میں خال خال ہی نظر آتا تھا۔

بلال ڈنمارک سے ڈگری کرنے کے بعد کچھ دن کیلئے یہاں برطانیہ آیا تو ان دنوں رمضان کا مہینہ تھا۔ ابو نے مجھے خصوصی طور پر فون کرکے کہا کہ میری طرف سے اسے کسی بہت اچھی جگہ ایک افطار ڈنر کروائو اور ڈگری مکمل کرنے پر تحفہ بھی دو۔ اسی طرح ایک کزن فائنل رزلٹ ملنے پر اپنے گھر جانے سے پہلے ہماری طرف آیا اور ابو کو رزلٹ بتایا تو اسے پیسے دئے کہ گھر جاتے ہوئے مٹھائی لے کر جائے اور سب کو مبارک دے۔

وہ خوشیاں بانٹنے، خوشیاں منانے اور خوشیوں میں بھرپور حصہ ڈالنے پر یقین رکھتے تھے۔ بلکہ شائد خوشی کے مواقع تلاش کرنے میں بھی۔ ابو جانی کو، بڑی کیا چھوٹی چھوٹی خوشیاں سیلیبریٹ کرنا بھی شروع ہی سے پسند تھا۔ ایسے معاملات میں بھی خوشی کا پہلو ڈھونڈ لیتے تھے جس کا ان کی ذات سے یا اردگرد لوگوں سے براہ راست تعلق نہیں بھی ہوتا تھا۔

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، نجانے ہم دونوں رات کو کہاں سے گھر واپس جارہے تھے، راستے میں امی نے فون کیا اور صبح کیلئے بیکری سے ناشتہ لے کر آنے کا کہا۔ بیکری پہنچے تو وہاں لگے ٹیلیویژن پر بنگلہ دیش اور انڈیا کا کرکٹ میچ چل رہا تھا جس میں بنگلہ دیش کافی محنت کے بعد فتح کے قریب تھا، ہم نے ناشتہ لیا اور کاونٹر پر پہنچ کر بل دینے لگے تو ابو نے کہا کہ تھوڑی دیر ٹہرو، میچ ختم ہوتا ہے تو چلتے ہیں۔۔۔ مجھے کچھ حیرانی ہوئی کہ ٹھیک ہے ان کو کرکٹ پسند ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ بازار میں کھڑے ہو کر دو “دشمن” ٹیموں کا میچ دیکھیں، خیر بنگلہ دیش میچ جیتا، بیکری میں سب ہی نے تالیاں بجائیں اور ابو نے کہا کہ ناشتے کے سامان کیساتھ ایک کیک بھی پیک کردو، میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا تو مسکرا کر کہنے لگے آج بنگالی بھائیوں نے انڈیا کو ہرایا ہے۔۔۔

ابو کی ذات سے وابستہ اسی طرح کے اور کئی واقعات بیٹھے ہی بیٹھے ذہن میں کودتے ہیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔ ان تمام منتشر یادوں اور چھوٹے چھوٹے واقعات کو ایک جگہ جمع کرنے کا مقصد فقط یہی ہے کہ ان کی شخصیت کا ایک اور حسین پہلو لکھ کر رکھ لوں۔ جو مجھے اور ان سے محبت کرنے والے ہر شخص کو ہمیشہ انہیں یاد رکھنے میں مدد دے۔

جو تیری یاد میں گزرے وہی پل زندگی ٹہرے
بظاہر ساری گھڑیاں سارے لمحے ایک سے تھے

Leave a Reply